سُلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے
زمیں پہ اِتنے سِتم آسماں کے ہوتے ہوئے
کسی بھی گھاٹ نہ اُترا مرا سفینۂ دل
ہَوا کے رُخ پہ کُھلے بادباں کے ہوتے ہوئے
کہ جیسے اُس کو فضاؤں سے خاص نِسبت ہو
مہ و نجوم کی جانب نظر اُٹھے کیسے
اس اپنے رنگ بھرے خاکداں کے ہوتے ہوئے
عجب طرح کا مسافر تھا اپنا عامرؔ بھی
اکیلا چلتا رہا کارواں کے ہوتے ہوئے
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment