Monday 3 February 2014

سلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے

سُلگ رہی ہے فضا سائباں کے ہوتے ہوئے 
زمیں پہ اِتنے سِتم آسماں‌ کے ہوتے ہوئے 
کسی بھی گھاٹ نہ اُترا مرا سفینۂ دل 
ہَوا کے رُخ‌ پہ کُھلے بادباں‌ کے ہوتے ہوئے 
کہ جیسے اُس کو فضاؤں‌ سے خاص نِسبت ہو 
پرندہ اُڑتا رہا آشیاں کے ہوتے ہوئے 
مہ و نجوم کی جانب نظر اُٹھے کیسے 
اس اپنے رنگ بھرے خاکداں کے ہوتے ہوئے 
عجب طرح‌ کا مسافر تھا اپنا عامرؔ بھی 
اکیلا چلتا رہا کارواں‌ کے ہوتے ہوئے​

مقبول عامر

No comments:

Post a Comment