Thursday 6 February 2014

آپس میں بات چِیت کی زحمت کئے بغیر

آپس میں بات چِیت کی زحمت کئے بغیر
بس چل رہے ہیں ساتھ، شکایت کئے بغیر
آنکھوں سے کر رہے ہیں بیاں اپنی کیفیت
ہونٹوں سے حالِ دل کی وضاحت کئے بغیر
دونوں کو اپنی اپنی انائیں عزیز ہیں
لیکن، کسی کو نذرِ ملامت کئے بغیر
ٹھہرا ہُوا ہے وقت مراسم کے درمیاں
پیدا خلیج میں کوئی وُسعت کئے بغیر
حیران ہوں کہ اتنے برس کیسے کٹ گئے
رسمی سا کوئی عہدِ رفاقت کئے بغیر
وہ جا نہیں چُکا ہے مگر اس کے باوجود
تنہا کھڑے ہیں ہم اپسے رُخصت کئے بغیر
چارہ گروں سے دونوں کو پڑتا ہے واسطہ
لیکن، کسی کے حق میں خیانت کئے بغیر

اعتبار ساجد


No comments:

Post a Comment