Thursday 6 February 2014

نہ گمان موت کا ہے، نہ خیال زندگی کا

نہ گمان موت کا ہے، نہ خیال زندگی کا
سو یہ حال اِن دنوں ہے مِرے دل کی بے کسی کا
میں شِکستہ بام و در میں جسے جا کے ڈھونڈتا تھا
کوئی یاد تھی کسی کی، کوئی نام تھا کسی کا
میں ہواؤں سے ہراساں، وہ گُھٹن سے دل گرِفتہ
میں چراغ تیرگی کا، وہ گُلاب روشنی کا
ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں
کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا
کوئی شہر آ رہا ہے، تو یہ خوف آ رہا ہے
کوئی جانے کب اُتر لے کہ بھروسا کیا کسی کا
کوئی مختلف نہیں ہے یہ دُھواں، یہ رائیگانی
کہ جو حال شہر کا ہے، وہی اپنی شاعری کا

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment