Thursday, 6 February 2014

کبھی تو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے تو کیوں ہے

کبھی تُو نے خود بھی سوچا کہ یہ پیاس ہے، تو کیوں ہے
تُجھے پا کے بھی مِرا دل، جو اداس ہے، تو کیوں ہے​
مجھے کیوں عزیز تر ہے، یہ دُھواں دُھواں سا موسم
یہ ہوائے شامِ ہِجراں، مجھے راس ہے، تو کیوں ہے​
تُجھے کھو کے سوچتا ہوں، مِرے دامنِ طلب میں
کوئی خواب ہے تو کیوں ہے، کوئی آس ہے، تو کیوں ہے​
میں اُجڑ کے بھی ہُوں تیرا، تُو بِچھڑ کے بھی ہے میرا
یہ یقین ہے تو کیوں ہے، یہ قیاس ہے، تو کیوں ہے​
مِرے تن برہنہ دشمن، اسی غم میں گُھل رہے ہیں
کہ مِرے بدن پہ سالم، یہ لباس ہے، تو کیوں ہے​
کبھی پُوچھ اِس کے دل سے کہ یہ خُوش مزاج شاعر
بہت اپنی شاعری میں، جو اداس ہے، تو کیوں ہے​
تِرا کس نے دل بُجھایا، مِرے اعتبار ساجدؔ
یہ چراغِ ہِجر اب تک، تِرے پاس ہے، تو کیوں ہے​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment