Friday, 7 February 2014

دونوں آنکھوں کی اک اوک بنائی میں نے

دونوں آنکھوں کی اِک اوک بنائی میں نے 
پھر بہتے منظر سے پیاس بُجھائی میں نے
تم کو شاید اس کا بھی احساس نہ ہو گا
ریزہ ریزہ جوڑی تھی یکجائی میں نے
جیسے کوئی دو دو عمریں کاٹ رہا ہو 
جھیلی اپنی اور اس کی تنہائی میں نے
ایک محبت مجھ میں شعلہ زن رہتی تھی 
خیر پھر اک دن آگ سے آگ بُجھائی میں نے 
خود کو راضی رکھنے کی ہر کوشش کر کے
آخر اپنے آپ سے جان چُھڑائی میں نے
ان گلیوں میں اور شہروں میں اور باغوں میں 
زندہ رکھا اندر کا صحرائی میں نے
میری پُونجی اور تھی، میرے خرچ الگ تھے 
خواب کمائے میں نے، نیند اُڑائی میں نے
صبح کے تارے تجھ کو بھی معلوم نہ ہو گا 
صدیوں جیسی کی تھی شب پیمائی میں نے 
اس ماحول میں یہ اتنا آسان نہیں تھا 
دیکھو لوگو! کنول بنا دی کائی میں

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment