Thursday 6 February 2014

تشنگی مورد الزام نہیں ہوتی تھی

تشنگی مُوردِ اِلزام نہیں ہوتی تھی
ان دنوں پیاس بہت عام نہیں ہوتی تھی
ہِجر میں فُرصتیں ہوتی تھیں غزل کہنے کی
زِیست یُوں وقفِ آلام نہیں ہوتی تھی
دن مہکتے تھے تِرے قُرب کے گُلزاروں میں
یُوں شرربار کبھی شام نہیں ہوتی تھی
رَتجگوں میں بھی میسّر تھا سکونِ دل و جاں
نیند ہی باعثِ آرام نہیں ہوتی تھی
یُوں نہ ہوتے تھے بہم عشق و ہوس کے رَستے
ہر نظر لائقِ دُشنام نہیں ہوتی تھی
شاعری عترتِ اِظہار کا فن تھی ساجدؔ
یہ روِش ایسی بھی بدنام نہیں ہوتی تھی

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment