Thursday, 6 February 2014

ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں​

ابھی آگ پُوری جلی نہیں، ابھی شعلے اُونچے اُٹھے نہیں​
سو کہاں کا ہوں میں غزل سَرا، مِرے خال و خد بھی بنے نہیں​
ابھی سِینہ زور نہیں ہُوا، میرے دل کے غم کا معاملہ ​
کوئی گہرا درد نہیں مِلا، ابھی ایسے چرکے لگے نہیں​
اس سَیلِ نُور کی نِسبتوں سے میرے دریچۂ دل میں آ ​
میرے طاقچوں میں ہے روشنی، ابھی یہ چراغ بُجھے نہیں​
نہ میرے خیال کی انجمن، نہ میرے مزاج کی شاعری ​
سو قیام کرتا میں کس جگہ، میرے لوگ مجھ کو مِلے نہیں​
میری شُہرتوں کے جو داغ ہیں،، میری محنتوں کے یہ باغ ہیں ​
یہ متاع و مال شِکستگاں ہیں، زکوٰاۃ میں تو مِلے نہیں​
ابھی بِیچ میں ہے یہ ماجرا، سو رہے گا جاری یہ سِلسلہ ​
کہ بِساطِ حرف و خیال پر، ابھی پورے مُہرے سجے نہیں​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment