Saturday, 8 February 2014

اب ہے ٹوٹا سا دل خود سے بیزار سا

اب ہے ٹُوٹا سا دل خود سے بیزار سا
اس حویلی میں لگتا تھا دربار سا
اس طرح ساتھ نِبھنا ہے دُشوار سا
میں بھی تلوار سا، تُو بھی تلوار سا
خوبصورت سی پاؤں میں زنجیر ہو
گھر میں بیٹھا رہا میں گرفتار سا
گڑیا گڈے کو بیچا خریدا گیا
گھر سجایا گیا رات بازار سا
شام تک کتنے ہاتھوں سے گزروں گا میں
چائے خانوں میں اُردو کے اخبار سا
میں فرشتوں کی اُلفت کے لائق نہیں
ہمسفر کوئی ہوتا گناہ گار سا
بات کیا ہے کہ مشہور لوگوں کے گھر
موت کا سوگ ہوتا ہے تہوار سا
میں فرشتوں کی صُحبت کے لائق نہیں
ہم سفر کوئی ہوتا گنہگار سا
زینہ زینہ اُترتا ہُوا آئینہ
اُس کا لہجہ انوکھا کھنک دار سا

بشیر بدر 

No comments:

Post a Comment