Saturday, 8 February 2014

چراغ لے کے ترے شہر سے گزرنا ہے

چراغ لے کے تِرے شہر سے گزرنا ہے
یہ تجربہ بھی ہمیں بار بار کرنا ہے
میں وہ پہاڑ ہوں جو کٹ رہا ہوں پانی سے
یہ دل نہیں مِرے آنسوؤں کا جھرنا ہے
مِرے عزیزو! میں اُتری ندی کا لہجہ ہوں
مجھے چڑھے ہوئے دریا کو پار کرنا ہے
بہت جدید ہوں لیکن یہ میرا ورثہ ہے
اسی قدیم گلی سے مجھے گزرنا ہے
تمہیں خبر نہیں سورج بھی عکس ہے میرا
تمام دن کا مجھے انتظام کرنا ہے
وہ ایک شخص کہ جس کو غزل بھی کہتے ہیں
اسی کے نام سے جینا، اسی پہ مرنا ہے

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment