چراغ لے کے تِرے شہر سے گزرنا ہے
یہ تجربہ بھی ہمیں بار بار کرنا ہے
میں وہ پہاڑ ہوں جو کٹ رہا ہوں پانی سے
یہ دل نہیں مِرے آنسوؤں کا جھرنا ہے
مِرے عزیزو! میں اُتری ندی کا لہجہ ہوں
بہت جدید ہوں لیکن یہ میرا ورثہ ہے
اسی قدیم گلی سے مجھے گزرنا ہے
تمہیں خبر نہیں سورج بھی عکس ہے میرا
تمام دن کا مجھے انتظام کرنا ہے
وہ ایک شخص کہ جس کو غزل بھی کہتے ہیں
اسی کے نام سے جینا، اسی پہ مرنا ہے
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment