Saturday, 8 February 2014

وقت رخصت کہیں تارے، کہیں جگنو آئے

وقتِ رُخصت کہیں تارے، کہیں جگنو آئے
ہار پہنانے مجھے پھول سے بازو آئے
بس گئی ہے مِرے احساس میں یہ کیسی مہک
کوئی خوشبو میں لگاؤں، تِری خوشبو آئے
میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو مِرے در پہ اور تُو آئے
اس کی باتیں کہ گل و لالہ پر شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے
ان دنوں آپ کا عالم بھی عجب عالم ہے
شوخ کھایا ہوا جیسے کوئی آہُو آئے
اس نے چُھو کر مجھے پتھر سے انسان کیا
مُدّتوں بعد مِری آنکھ میں آنسو آئے

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment