تیری جنت سے ہِجرت کر رہے ہیں
فرشتے کیا بغاوت کر رہے ہیں
ہم اپنے جرم کا اقرار کر لیں
بہت دنوں سے یہ ہمّت کر رہے ہیں
وہ خود ہارے ہوئے ہیں زندگی سے
زمیں بھیگی ہوئی ہے آنسوؤں سے
یہاں بادل عبادت کر رہے ہیں
فضا میں آیتیں مہکی ہوئی ہیں
کہیں بچے تلاوت کر رہے ہیں
ہماری بے بسی کی انتہا ہے
کہ ظالم کی حمایت کر رہے ہیں
پرندوں کے زمیں و آسماں کیا
وطن میں رہ کے ہِجرت کر رہے ہیں
غزل کی آگ میں پلکوں کے سائے
محبت کی حفاظت کر رہے ہیں
میں اپنے بھائیوں سے مختلف ہوں
وہ موسم کی شکایت کر رہے ہیں
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment