Monday 3 February 2014

راحتیں کہاں ہوں گی کون سے نگر جائیں

راحتیں کہاں ہوں گی، کون سے نگر جائیں
کیوں نہ تیری آنکھوں کی جِھیل میں اُتر جائیں
کیوں نہ اِک الگ اپنا راستہ تراشیں ہم
کس کا نقشِ پا ڈھونڈیں کس کی راہ پر جائیں
اس ملول صورت کی تاب کیسے لاؤ گے
یوں نہ ہو کہ پھر آنکھیں آنسوؤں سے بھر جائیں
تیری جنبشِ لب پر انحصار ہے اپنا
تُو کہے تو جی لیں ہم، تُو کہے تو مر جائیں
کون اس زمانے میں سر پہ ہاتھ رکھے گا
کس کے در پہ لے ہم اپنی چشمِ تر جائیں
اہلِ درد کہتے ہیں وقت ایک مرہم ہے
اپنے زخم بھی شاید ایک روز بھر جائیں
گام گام پر عامرؔ مشعلیں جلائیں گے
آنے والوں کی خاطر روشنی تو کر جائیں

مقبول عامر

No comments:

Post a Comment