Thursday 6 February 2014

گئی رت کی وحشتوں کا یہ خراج مانگتی ہے

گئی رُت کی وحشتوں کا یہ خراج مانگتی ہے
کوئی کھیل تو نہیں ہے یہ غزل کی شاعری ہے
یہی سوچ، یہ نِدامت، مِرا دل نچوڑتی ہے
کہ حرُوفِ آرزو میں کسی رنگ کی کمی ہے
جو لہو لہو ہیں مصرعے، تو ہُنر نہیں ہے میرا
یہ بہارِ زخمِ دل ہے، یہ کمالِ جانکنی ہے
مِرا چاند رہ گیا ہے کہیں راستے میں شائد
اِک اداس کُنج گُل میں مِری شام ڈھل رہی ہے
کبھی عکس تھا کسی کا اسی چوکھٹے میں روشن
وہ شِکستہ خالی کِھڑکی مجھے اب بھی دیکھتی ہے
مِرے دل کے طاقچے پر ذرا تم نِگاہ رکھنا
مِری رات کے سفر میں یہ چراغ آخری ہے
مِرے اعتبار ساجدؔ! مرے بے قرار ساجدؔ
ذرا حوصلہ تو رکھو، یہ فِراق عارضی ہے

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment