Thursday 6 February 2014

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اضطراب میں ہیں

یہی نہیں کہ فقط ہم ہی اِضطراب میں ہیں
ہمارے بُھولنے والے بھی اِس عذاب میں ہیں
اِسی خیال سے، ہر شام جلد نیند آئی
کہ مجھ سے بِچھڑے ہوئے لوگ شہرِ خواب میں ہیں
وہی ہے رنگِ جنُوں، ترکِ ربط و ضبط پہ بھی
تِری ہی دُھن میں ہیں اب تک اُسی سراب میں ہیں
عزیز کیوں نہ ہو ماضی کا ہر ورق ہم کو
کہ چند سُوکھے ہُوئے پُھول اِس کتاب میں ہیں
شناوروں کی رَسائی کے منتظر ساجدؔ
ہم اپنے عہد کے اِک شہرِ زیرِ آب میں ہیں​

اعتبار ساجد

No comments:

Post a Comment