میں عشق ذات ہوں چہرہ بدل کے آئی ہوں
مجھے سنبھال میں کانٹوں پہ چل کے آئی ہوں
تجھے یہ زعم کہ تُو مرد ہے مگر میں بھی
جلا کے کشتیاں گھر سے نکل کے آئی ہوں
میں آج رات کی رانی نہیں کہ تُو مجھ کو
مسل ہی دے کہ میں صدیاں مسل کے آئی ہوں
تُو اپنی آنکھ کے شِیشے کو صاف کر، ناں کر
میں اپنی عُمر کی آتش میں جل کے آئی ہوں
جواز اب مُجھے تاخِیر کے نہ دے جُھوٹے
پلٹ تو آئی ہوں، پتّھر میں ڈھل کے آئی ہوں
گَلے مِلوں گی تو سِینے میں سانس روکوں گی
میں جلتی دھڑکنوں پہ یُوں پِھسل کے آئی ہوں
میں ساتھ چل رہی ہوں تو یہی غنیمت ہے
میں کسی اور کے ماتھے سے ٹَل کے آئی ہوں
کبھی نہ یُوں مُجھے کمزور جاننا ناصرؔ
کہ اب میں آخری آنسُو نِگل کے آئی ہوں
مجھے سنبھال میں کانٹوں پہ چل کے آئی ہوں
تجھے یہ زعم کہ تُو مرد ہے مگر میں بھی
جلا کے کشتیاں گھر سے نکل کے آئی ہوں
میں آج رات کی رانی نہیں کہ تُو مجھ کو
مسل ہی دے کہ میں صدیاں مسل کے آئی ہوں
تُو اپنی آنکھ کے شِیشے کو صاف کر، ناں کر
میں اپنی عُمر کی آتش میں جل کے آئی ہوں
جواز اب مُجھے تاخِیر کے نہ دے جُھوٹے
پلٹ تو آئی ہوں، پتّھر میں ڈھل کے آئی ہوں
گَلے مِلوں گی تو سِینے میں سانس روکوں گی
میں جلتی دھڑکنوں پہ یُوں پِھسل کے آئی ہوں
میں ساتھ چل رہی ہوں تو یہی غنیمت ہے
میں کسی اور کے ماتھے سے ٹَل کے آئی ہوں
کبھی نہ یُوں مُجھے کمزور جاننا ناصرؔ
کہ اب میں آخری آنسُو نِگل کے آئی ہوں
ناصر ملک
No comments:
Post a Comment