Tuesday 4 February 2014

رات کے پچھلے پہر نے کہہ دیا ہے آج بھی

رات کے پِچھلے پہر نے کہہ دِیا ہے آج بھی
عشق تو خونِ جِگر کو پی رہا ہے آج بھی
مُفلسی میں بُجھ گئی ہیں میرے فن کی مشعلیں
حرف کوئی دل میں لیکن جاگتا ہے آج بھی
بے ارادہ مرحلوں میں بانٹ دی ہے زندگی
فیصلوں کا ایک سُورج ڈھل گیا ہے آج بھی
بے وفا ہے، جاں گسل ہے یا فریبِ آرزو
پُر تپاک انداز میں آ کر مِلا ہے آج بھی
اے شبِ ہِجراں! تِری طعنہ زَنی ہو نامُراد
دل اُسی کا مُنتظر ہے، دَر کُھلا ہے آج بھی
موردِ اِلزام قسمت حادثوں پر ہے، مگر
جُرم تو اِنسان کے ہاتھوں ہُوا ہے آج بھی
عقلِ آدمؑ پر جہالت کل بھی تھی سایہ کُشا
ہر کسی کے ہاتھ میں اپنا خدا ہے آج بھی
یاد اُس کو آ گیا ناصرؔ تمہارا بچپنا
وہ پُرانا سا کِھلونا رو پڑا ہے آج بھی

ناصر ملک

No comments:

Post a Comment