وہ بھی کیا دن تھے کہ پَل میں کر دیا کرتے تھے ہم
عمر بھر کی چاہتیں ہر ایک ہرجائی کے نام
وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکہتوں کے ذائقے
لِکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام
وہ بھی صحبتیں تھیں جن کی مُسکراہٹ کے فسوں
وہ بھی کیا شامیں تھیں جن کی شُہرتیں منسوب تھیں
بے سبب کُھلے ہوئے بالُوں کی رُسوائی کے نام
اب کے وہ رُت ہے کہ ہر تازہ قیامت کا عذاب
اپنے جاگتے زخموں کی گہرائی کے نام
اب کے اپنے آنسوؤں کے سب شکستہ آئینے
کچھ زمانے کے لیے، کچھ تنہائی کے نام
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment