Wednesday 5 February 2014

وہ بھی کیا دن تھے کہ پل میں کر دیا کرتے تھے ہم

وہ بھی کیا دن تھے کہ پَل میں کر دیا کرتے تھے ہم
عمر بھر کی چاہتیں ہر ایک ہرجائی کے نام
وہ بھی کیا موسم تھے جن کی نکہتوں کے ذائقے
لِکھ دیا کرتے تھے خال و خد کی رعنائی کے نام
وہ بھی صحبتیں تھیں جن کی مُسکراہٹ کے فسوں
وقف تھے اہلِ وفا کی بزم آرائی کے نام
وہ بھی کیا شامیں تھیں جن کی شُہرتیں منسوب تھیں
بے سبب کُھلے ہوئے بالُوں کی رُسوائی کے نام
اب کے وہ رُت ہے کہ ہر تازہ قیامت کا عذاب
اپنے جاگتے زخموں کی گہرائی کے نام
اب کے اپنے آنسوؤں کے سب شکستہ آئینے
کچھ زمانے کے لیے، کچھ تنہائی کے نام

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment