Wednesday 5 February 2014

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی

نہ جانے ظرف تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی
رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی
غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہَوا زیادہ تھی
وفا کی بات الگ، پر جسے جسے چاہا
کسی میں‌ حسن، کسی میں ادا زیادہ تھی
فرازؔ اس سے وفا مانگتا ہے جاں کے عوض
جو سچ کہیں تو یہ قیمت ذرا زیادہ تھی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment