Sunday 2 February 2014

ذکر ان کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

عارفانہ کلام نعتیہ کلام

ذِکراُنؐ کا ابھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے
دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے
لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے
تحریر کروں اسمِ نبیؐ، ہدیۂ جاں سے
کِرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں
تُم اُنؐ کو پکارو تو "حضورؐ" دل و جاں سے
ہر دَور کی اُمید ہیں، ہر عہد کا پیغام
پہجان ہے اُنؐ کی نہ زمیں سے نہ زماں سے
وہ جس کی طلبگار ہے خود رحمتِ یزداں
زینت ہے دو عالم کی اُسی سرورواں سے
وہ خیر بشر، حسنِ ازل، نازشِ دوراں
آئینے اتر آئے ہیں محراب اذاں سے
کیوں قافلے والوں کو ابھی ہوش نہ آیا
منزل تو ملے گیا انہیں قدموں کے نشاں سے
یہ خوف، یہ صحرا، یہ کڑی دھوپ کے تیور
ہے آس بہت آپﷺ کے دامانِ داماں سے
اس نام کی خوشبو ہے وسیلہ بھی صلہ بھی
گزرے ہے صبا جیسے جہانِ گزراں سے

ادا جعفری 

No comments:

Post a Comment