Wednesday 12 February 2014

تیرگی رات بھر نہ جائے گی

تیرگی رات بھر نہ جائے گی
زندگی کیا گزر نہ جائے گی
کِھینچ دے گا سماج دِیواریں 
میرے گھر تک سحر نہ جائے گی
جم گئی گردِ عُمر چہرے پر
جھاڑنے سے اُتر نہ جائے گی
آئینہ دیکھتے رہو بیٹھے
اس سے آگے نظر نہ جائے گی
نہ سنی چند پتھروں نے اگر
میری آواز مر نہ جائے گی
وہ مظفرؔ ضرور آئے گا
کیا ہماری خبر نہ جائے گی

مظفر وارثی

No comments:

Post a Comment