Wednesday 12 February 2014

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل! کسے نصیب یہ توفیقِ اِضطراب
مِلتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
دل بن گیا ہے دوست کی خلوت کبھی کبھی
جوشِ جنوں میں درد کی طُغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صُورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا، نہ تمہارا خیال تھا
یُوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست! ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

 ناصر کاظمی

No comments:

Post a Comment