ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اے دل! کسے نصیب یہ توفیقِ اِضطراب
مِلتی ہے زندگی میں یہ راحت کبھی کبھی
تیرے کرم سے اے عالمِ حُسنِ آفریں
جوشِ جنوں میں درد کی طُغیانیوں کے ساتھ
آنکھوں میں ڈھل گئی تیری صُورت کبھی کبھی
تیرے قریب رہ کے بھی دل مطمئن نہ تھا
گزری ہے مجھ پہ بھی یہ قیامت کبھی کبھی
کچھ اپنا ہوش تھا، نہ تمہارا خیال تھا
یُوں بھی گزر گئی شبِ فرقت کبھی کبھی
اے دوست! ہم نے ترکِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment