اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دِہر سے وِحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایّام سے ہِجرت کر جا
مانتا جس کو نہ ہو دل وہ عمل خود پہ گزار
جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا
سر کٹایا نہیں جاتا ہے، تو کٹ جاتا ہے
بات اتنی ہے کہ اس کام میں سبقت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید
اِک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہِمت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دِہر سے وِحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور خود عرصۂ ایّام سے ہِجرت کر جا
مانتا جس کو نہ ہو دل وہ عمل خود پہ گزار
جو فسانہ ہو اسے چھو کے حقیقت کر جا
سر کٹایا نہیں جاتا ہے، تو کٹ جاتا ہے
بات اتنی ہے کہ اس کام میں سبقت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید
اِک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہِمت کر جا
خورشید رضوی
No comments:
Post a Comment