پلٹ کے چاند، سِیہ رات میں نہیں آیا
سو پھر وہ ہاتھ، مِرے ہاتھ میں نہیں آیا
کِھلی وہ صبح، بنفشے کا پُھول ہو جیسے
طلائی رنگ، شروعات میں نہیں آیا
وہ ناچتا ہوا جنگل، وہ جاگتا ہوا خواب
پِھر اس کے بعد ہوا یُوں کہ بادشاہ کبھی
سفید و سُرخ محلات میں نہیں آیا
غزل ادھوری پڑی رہ گئی کہ موسمِ گُل
دوبارہ باغِ طلِسمات میں نہیں آیا
یہ مون سون تو پھر آ بسا ہے آنکھوں میں
اور اب کی بار یہ برسات میں نہیں آیا
کچھ اس لیے بھی اسے تازگی نصیب نہیں
کہ شہر، اپنے مضافات میں نہیں آیا
یہاں مکین تھے پہلے سے میرے خواہش و خواب
میں بے سبب تو خرابات میں نہیں آیا
لکیریں کھینچ گیا ہے تِری طرح مجھ میں
وہ زلزلہ جو مِری ذات میں نہیں آیا
یہ شعبدے نہ دِکھا، دل دِکھا مجھے، کہ فقیر
تلاش کشف و کرامات میں نہیں آیا
سعود عثمانی
No comments:
Post a Comment