Friday, 7 February 2014

کشیدہ پر کو مخالف ہوا بھی ملتی ہے

کشِیدہ پَر کو، مُخالف ہَوا بھی مِلتی ہے
یہ وہ ہُنر ہے کہ جسکی سزا بھی مِلتی ہے
تِری شبیہ جو مِلتی نہیں کسی سے کبھی
کبھی کبھی کسی چہرے سے جا بھی مِلتی ہے
میں اپنے ساتھ بہت دُور جا نکلتا ہوں
اگر کبھی مجھے فرصت زرا بھی مِلتی ہے
تُو جانتا نہیں مٹی کی برکتیں، کہ یہیں
خدا بھی مِلتا ہے، خلقِ خدا بھی مِلتی ہے
میں اِک شجر سے لِپٹتا ہوں آتے جاتے ہوئے
سکوں بھی مِلتا ہے مجھ کو، دُعا بھی مِلتی ہے

سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment