گو سب کو بہم ساغر و بادہ تو نہیں تھا
یہ شہر اُداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
گلیوں میں پِھرا کرتے تھے دو چار دِوانے
ہر شخص کا صد چاک لبادہ تو نہیں تھا
منزل کو نہ پہچانے رہِ عشق کا راہی
تھک کر یونہی پَل بھر کے لئے آنکھ لگی تھی
سو کر ہی نہ اُٹھیں، یہ ارادہ تو نہیں تھا
واعظ سے رہ و رسم رہی رِند سے صُحبت
فرق ان میں کوئی اتنا زیادہ تو نہیں تھا
فیض احمد فیض
No comments:
Post a Comment