Friday 7 February 2014

دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دیا میں

دیوار پہ رکھا ہوا مٹی کا دِیا میں
سب کچھ کہا اور رات سے کچھ بھی نہ کہا میں
کچھ اور بھی مسکن تھے، تِرے دل کے علاوہ
لگتا ہے کہیں اور بھی مِسمار ہوا میں
اِس دُکھ کو تو میں ٹھیک بتا بھی نہیں پاتا
میں خود کو میسّر تھا، مگر مِل نہ سکا میں
جاگا ہوں، مگر خواب کی دہشت نہیں جاتی
کیا دیکھتا ہوں یار! تُجھے بُھول گیا میں
سُورج کے اُفق ہوتے ہیں، منزل نہیں ہوتی
سو، ڈھلتا رہا، جلتا رہا، چلتا رہا میں
اِک عشق قبیلہ مِری مٹّی میں چھپا تھا
اِک شخص تھا لیکن کوئی اِک شخص نہ تھا میں
اِک گھونٹ کی وُقعت مِرے پِندار سے کم تھی
اس بات سے واقف، مِرا مشکیزہ ہے یا میں
اِک جسم میں رہتے ہوئے ہم دُور بہت تھے
آنکھیں نہ کُھلیں مجھ پہ، نہ آنکھوں پہ کُھلا میں
کچھ اور بھی درکار تھا سب کچھ کے علاوہ
کیا ہو گا جسے ڈھونڈتا تھا تیرے سوا میں

 سعود عثمانی

No comments:

Post a Comment