Sunday, 2 February 2014

ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے

ہم ہیں ظلمت میں کہ ابھرا نہیں خورشید اب کے
کوئی کرتا ہی نہیں رات کی تردید اب کے
کون سنتا تھا حدیثِ غمِ دِل یوں تو مگر
ہم نے چھیڑی ہے تِرے نام سے تمہید اب کے
پی گئے رِند کہ نایاب ہے صہبا، ورنہ
زہر تھی محتسبِ شہر کی تنقید اب کے
تشنگی وجہِ جُنوں ہے تو چلو یوں ہی سہی
کوئی سنگ آئے سرِ ساغرِ جمشید اب کے
اِک زمانے سے نہ روئے ہیں نہ جاں تڑپی ہے
دِل پہ لازم ہے تِرے درد کی تجدید اب کے
قصۂ اہلِ وفا جانے کہاں تک پہنچے
منزلِ دار و رسن ٹھہری ہے تمہید اب کے
لہو روئے ہیں تو گلنار شفق پھولے گی
آنسو بوئے ہیں تو کاٹیں گے خورشید اب کے
ہم نے یہ سوچ کے جاں دی ہے محبت میں فراز
بُوالہوس کرتے ہیں کِس رنگ میں تقلید اب کے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment