Sunday 2 February 2014

گلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں

گُلوں سی گفتگو کریں، قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب مِلیں حکایتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اَوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دِل میں تھی نِگاہ سی، نِگاہ میں کِرن سی تھی
وہ داستاں اُلجھ گئی، وضاحتوں کے درمیاں
کوئی نگر، کوئی گلی، شجر کی چھاؤں ہی سہی
یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں
اب اُس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث
نِگہ جھپک جھپک گئی اِرادتوں کے درمیاں
صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکو گی تم
تمام عُمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں

ادا جعفری 

No comments:

Post a Comment