سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے
خود مجھے اپنی ہی دانائی سے ڈر لگتا ہے
ہم نے دیکھے ہیں بدلتے ہوئے موسم کتنے
موسمِ گُل! تِری انگڑائی سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کون سے منظر کو اتارے دل میں
آئینے بھی تو مِرا ساتھ نہ دینے پائے
اب تو خود اپنی شناسائی سے ڈر لگتا ہے
وہ ملیں گے تمہیں ساحل کا نظارا کرتے
جن کو دریاؤں کی گہرائی سے ڈر لگتا ہے
آپ کا حکم ہے کچھ آپ پہ لِکھوں لیکن
اپنی تحریر کی سچائی سے ڈر لگتا ہے
آسماں ایک زمانے سے ہدف ہے ثاقبؔ
اپنی پرواز کی پسپائی سے ڈر لگتا ہے
سہیل ثاقب
No comments:
Post a Comment