Tuesday 2 May 2017

سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے

سچ جو کہتا ہوں تو سچائی سے ڈر لگتا ہے
خود مجھے اپنی ہی دانائی سے ڈر لگتا ہے
ہم نے دیکھے ہیں بدلتے ہوئے موسم کتنے
موسمِ گُل! تِری انگڑائی سے ڈر لگتا ہے
جانے کب کون سے منظر کو اتارے دل میں
اِس بھٹکتی ہوئی بینائی سے ڈر لگتا ہے
آئینے بھی تو مِرا ساتھ نہ دینے پائے
اب تو خود اپنی شناسائی سے ڈر لگتا ہے
وہ ملیں گے تمہیں ساحل کا نظارا کرتے
جن کو دریاؤں کی گہرائی سے ڈر لگتا ہے
آپ کا حکم ہے کچھ آپ پہ لِکھوں لیکن
اپنی تحریر کی سچائی سے ڈر لگتا ہے
آسماں ایک زمانے سے ہدف ہے ثاقبؔ
اپنی پرواز کی پسپائی سے ڈر لگتا ہے

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment