ٹھکرا کے اپنی ساری تب و تاب آ گئے
محفل میں لے کے ہم دلِ بے تاب آ گئے
ہم سے لکھے گئے نہ کسی طور آج تک
ایسے بھی اِس کہانی میں کچھ باب آ گئے
جاگا تو مجھ سے روٹھ کے جانے کہاں گئے
اس کی گلی میں جا کے تو کچھ بھی نہیں ملا
بے تاب ہی گئے تھے، سو بے تاب آ گئے
بچوں نے جو گھروندے بنائے تھے ریت کے
موجوں کی شوخیوں سے تہِ آب آ گئے
آباء کے نقشِ پا پہ چلے ہیں تمام عمر
یہ کم نہیں کہ جینے کے آداب آ گئے
سہیل ثاقب
No comments:
Post a Comment