کوئی ہو معتبر سے معتبر دیکھا نہیں جاتا
لباسِ راہزن میں راہبر دیکھا نہیں جاتا
کبھی پرواز تھی جن طائروں کی آسمانوں میں
زمیں پر اب انہیں بے بال و پر دیکھا نہیں جاتا
تمہارے سنگِ در سے اٹھ کے جائیں تو کہاں جائیں
شعاعیں حسن کی خیرہ کئے دیتی ہیں نظروں کو
وہ محفل میں ہیں بے پردہ، مگر دیکھا نہیں جاتا
عروسِ شب کے بستر پر مہک کر جو ہوئے قرباں
انہیں پھولوں کو اب وقتِ سحر دیکھا نہیں جاتا
سمجھتا ہوں وہ ظالم بے وفا بھی ہے ستم گر بھی
مگر پھر بھی اسے با چشمِ تر دیکھا نہیں جاتا
مریضِ غم کی حالت لاکھ ہو مایوس کن لوگو
’’مگرمایوس ہم سے چارہ گر دیکھا نہیں جاتا‘‘
حوادِث پر زمانے کے جسے ہنسنا نہ آتا ہو
ہماری بزم میں وہ نوحہ گر دیکھا نہیں جاتا
یہ کیا کم ہے گوارہ کر لیا بربادئ دل کو
مگر اے فوقؔ اب خونِ جگر دیکھا نہیں جاتا
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment