Tuesday 2 May 2017

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے

اک ذرا جب ہم اٹھا کر سر چلے
ہر طرف سے دیر تک پتھر چلے
اپنی قسمت میں ہے گردش، کیا رکیں
ہم اگر ٹھہریں تو ہر منظر چلے
رات کے ساتھی کو اب رخصت کرو
کچھ اسے بخشو کہ اس کا گھر چلے
تیزگامی ٹھوکریں کھلوائے گی
اس سے یہ کہئے کہ رک رک کر چلے
جی اٹھوں پھر سے کسی کی آرزو
خون بن کر جسم کے اندر چلے

مسلم سلیم

No comments:

Post a Comment