Monday 15 May 2017

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا

سر بسر یار کی مرضی پہ فدا ہو جانا
کیا غضب کام ہے راضی بہ رضا ہو جانا
بند آنکھو! وہ چلے آئیں تو وا ہو جانا
اور یوں پھوٹ کے رونا کہ فنا ہو جانا
عشق میں کام نہیں زور زبردستی کا 
جب بھی تم چاہو جدا ہونا، جدا ہو جانا
تیری جانب ہے بتدریج ترقی میری
میرے ہونے کی ہے معراج تِرا ہو جانا
تیرے آنے کی بشارت کے سوا کچھ بھی نہیں
باغ میں سوکھے درختوں کا ہرا ہو جانا
اک نشانی ہے کسی شہر کی بربادی کی
ناروا بات کا یک لخت روا ہو جانا
تنگ آ جاؤں محبت سے تو گاہے گاہے
اچھا لگتا ہے مجھے تیرا خفا ہو جانا
سی دیئے جائیں مِرے ہونٹ تو اے جانِ غزل 
ایسا کرنا مِری آنکھوں سے ادا ہو جانا
بے نیازی بھی وہی اور تعلق بھی وہی
تمہیں آتا ہے محبت میں خدا ہو جانا
اژدھا بن کے رگ و پَے کو جکڑ لیتا ہے
اتنا آسان نہیں غم سے رہا ہو جانا
اچھے اچھوں پہ برے دن ہیں لہٰذا فارس
اچھے ہونے سے تو اچھا ہے برا ہو جانا

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment