تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے
سمجھوتے کی زنجیر نہ پہناؤ انا کو
ہمراہ سدا طنز کی جھنکار چلے گی
جب پڑ کے الٹ جائے گی دولت کی زرہ پر
مفلس ہی پہ حالات کی تلوار چلے گی
اے تشنہ لباں! مژدہ ہے، آرام سے بیٹھو
خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی
مسلم سلیم
No comments:
Post a Comment