Wednesday 24 May 2017

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی

تقدیر کی مجھ سے یونہی تکرار چلے گی
میں سائے میں بیٹھوں گا تو دیوار چلے گی
چمنی سے ابلتی ہے وہ زنجیر دھوئیں کی
آزاد ہوا اب سے گرفتار چلے گی
تقدیر پہ انگلی کوئی ہرگز نہ اٹھائے
کس سمت ہوا کیا خبر اس بار چلے گی
سمجھوتے کی زنجیر نہ پہناؤ انا کو
ہمراہ سدا طنز کی جھنکار چلے گی
جب پڑ کے الٹ جائے گی دولت کی زرہ پر
مفلس ہی پہ حالات کی تلوار چلے گی
اے تشنہ لباں! مژدہ ہے، آرام سے بیٹھو
خود جوئے رواں سوئے طلبگار چلے گی

مسلم سلیم

No comments:

Post a Comment