تعجب ہے کہ اس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا
کوئ بھی پھول کیوں اس باغ میں خنداں نہیں ہوتا
انا جس کا ہو شیوہ اور نخوت جس کی فطرت ہو
جہاں میں قابلِ تعظیم وہ انساں نہیں ہوتا
اگر محفوظ ہوتا رات میں تنہا سفر کرنا
جسے معلوم ہے یہ زندگی غم سے عبارت ہے
اسے خوشیاں نہ ملنے کا کبھی ارماں نہیں ہوتا
ہو جس کا عزم مُحکم حوصلے میں ہو توانائ
ترقی کا پھر اس سے راستہ پنہاں نہیں ہوتا
سفینوں کی تباہی دیکھ کر دل ڈوب جاتا ہے
بہت خوش ناخدا ہوتا ہے جب طوفاں نہیں ہوتا
اسیروں نے تو پوری کر بھی لی مدت اسیری کی
پھر اس کے بعد بھی وا کیوں درِ زنداں نہیں ہوتا
کبھی غم ہیں کبھی خوشیاں کبھی رونا کبھی ہنسنا
سفر یہ زندگی کا نورؔ کچھ آساں نہیں ہوتا
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment