Wednesday, 24 May 2017

تعجب ہے کہ اس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا

تعجب ہے کہ اس پر باغباں حیراں نہیں ہوتا
کوئ بھی پھول کیوں اس باغ میں خنداں نہیں ہوتا
انا جس کا ہو شیوہ اور نخوت جس کی فطرت ہو
جہاں میں قابلِ تعظیم وہ انساں نہیں ہوتا
اگر محفوظ ہوتا رات میں تنہا سفر کرنا
تو یہ شہرِ تجلّی اس قدر وِیراں نہیں ہوتا
جسے معلوم ہے یہ زندگی غم سے عبارت ہے
اسے خوشیاں نہ ملنے کا کبھی ارماں نہیں ہوتا
ہو جس کا عزم مُحکم حوصلے میں ہو توانائ
ترقی کا پھر اس سے راستہ پنہاں نہیں ہوتا
سفینوں کی تباہی دیکھ کر دل ڈوب جاتا ہے
بہت خوش ناخدا ہوتا ہے جب طوفاں نہیں ہوتا
اسیروں نے تو پوری کر بھی لی مدت اسیری کی
پھر اس کے بعد بھی وا کیوں درِ زنداں نہیں ہوتا
کبھی غم ہیں کبھی خوشیاں کبھی رونا کبھی ہنسنا
سفر یہ زندگی کا نورؔ کچھ آساں نہیں ہوتا

نور سہارنپوری

No comments:

Post a Comment