ضبط کے امتحان سے نکلا
پھول آخر چٹان سے نکلا
جان تن سے نکل گئی لیکن
تُو نہیں میرے دھیان سے نکلا
نہ نکلنے پہ تھا بضد سورج
شجرہ دیکھا گیا تو پتھر بھی
پھول کے خاندان سے نکلا
اب مکمل ہوئی ہے یکجائی
عشق بھی درمیان سے نکلا
دے گیا آنکھ کو نمی کا وقار
سچا آنسو تھا، شان سے نکلا
دیکھتا تھا چراغ بن کر میں
سایہ سا اس مکان سے نکلا
کیا کہا، اب مِری ضرورت نئیں
جا، تُو میری امان سے نکلا
میری دستک پہ رات عکس ترا
آئینے کے جہان سے نکلا
ان لبوں پر یقین کر کے میں
شہرِ وہم و گمان سے نکلا
داستاں گو کو مارنے کے لیے
سامری داستان سے نکلا
تِیر سا کچھ پلک جھپکتے ہی
ابرووں کی کمان سے نکلا
گو نکالا گیا وہاں سے مگر
میں بڑی آن بان سے نکلا
جس کو پاتال میں کِیا تھا دفن
ساتویں آسمان سے نکلا
اب ہوں نادم کہ طیش میں فارس
جانے کیا کیا زبان سے نکلا
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment