Thursday, 11 May 2017

آنسو جھلک رہے ہیں چشم فسوں اثر میں

آنسو جھلک رہے ہیں چشمِ فسوں اثر میں
یا مۓ بھری ہوئی ہے پیمانۂ نظر میں
پاتا ہوں شامِ غم کو مِنت کش سحر میں
کروٹ بدل رہی ہے دنیا مِری نظر میں
کچھ پُر شکن جبیں سے ظاہر ہے برہمی سی
کچھ لطف بھی نہاں ہے بہکی ہوئی نظر میں
خورشید کی شعاعیں دھندلی سی ہیں ابھی کچھ
’’آنچل عروسِ شب کا ہے دامنِ سحر میں ‘‘
برہم سی ہو چلی ہے اے فوقؔ بزمِ عالم
آہوں کا دیکھتا ہوں تھوڑا بہت اثر میں

فوق کریمی

No comments:

Post a Comment