آنسو جھلک رہے ہیں چشمِ فسوں اثر میں
یا مۓ بھری ہوئی ہے پیمانۂ نظر میں
پاتا ہوں شامِ غم کو مِنت کش سحر میں
کروٹ بدل رہی ہے دنیا مِری نظر میں
کچھ پُر شکن جبیں سے ظاہر ہے برہمی سی
خورشید کی شعاعیں دھندلی سی ہیں ابھی کچھ
’’آنچل عروسِ شب کا ہے دامنِ سحر میں ‘‘
برہم سی ہو چلی ہے اے فوقؔ بزمِ عالم
آہوں کا دیکھتا ہوں تھوڑا بہت اثر میں
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment