چاہت میں جس کی میں نے بھرا گھر لٹا دیا
وہ پھر بھی کہہ رہا ہے مجھے تُو نے کیا دیا
دشمن ہے میرا کون؟ مرے اس سوال پر
دل نے مجھے جواب میں اک آئینہ دیا
ارمان و آرزو کا نشاں دور تک نہیں
تھا جس کو ناز اپنی ہر اک جیت پر بہت
قسمت نے ایک پل میں اسے بھی ہرا دیا
پوچھے یہ بات آج کے انسان سے کوئی
کیوں مقصدِ حیات کو اس نے بھلا دیا
سنتا نہیں ہے مجھ سے کوئی داستاں مری
تم نے مجھے نگاہ سے کتنا گرا دیا
ہنستا ہے دیکھ دیکھ کے ہر آدمی ہمیں
ہم نے بھی خود کو کیسا تماشا بنا دیا
اے نورؔ سوچنے سے تو واپس نہ آئے گا
وہ بے بہا تھا وقت جو تم نے گنوا دیا
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment