Friday, 19 May 2017

ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا

ابھی کسی کے نہ میرے کہے سے گزرے گا 
وہ خود ہی ایک دن اس دائرے سے گزرے گا
بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند 
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
جو اپنے آپ گزرتا ہے کوچۂ دل💞 سے
مجھے گماں تھا مِرے مشورے سے گزرے گا
قریب آنے کی تمہید ایک یہ بھی رہی 
وہ پہلے پہلے ذرا فاصلے سے گزرے گا
قصوروار نہیں پھر بھی چھپتا پھرتا ہوں 
وہ میرا چور ہے اور سامنے سے گزرے گا
چھپی ہو شاید اسی میں سلامتی دل کی 
یہ رفتہ رفتہ اگر ٹوٹنے سے گزرے گا
ہماری سادہ دلی تھی جو ہم سمجھتے رہے 
کہ عکس ہے تو اسی آئینے سے گزرے گا
سمجھ ہمیں بھی ہے اتنی کہ اس کا عہدِ ستم 
گزارنا ہے تو اب حوصلے سے گزرے گا
گلی گلی مِرے ذرے بکھر گئے تھے ظفرؔ 
خبر نہ تھی کہ وہ کس راستے سے گزرے گا

سراج الدین ظفر

No comments:

Post a Comment