نظر نہ آئے گی ماضی کی داستانوں میں
جو ٹوٹ پھوٹ ہے اس وقت خاندانوں میں
مکیں ہوں دوستو! میں ایسے شہرِ زنداں کا
جہاں پہ لوگ نظر بند ہیں مکانوں میں
نہ جانے اور ستم ڈھائے گا یہ سورج کیا
یہ سارا حسن انہیں تیرگی نے بخشا ہے
جو ضو طراز ستارے ہیں آسمانوں میں
خود اپنے ہاتھ سے تاراج کر رہے ہیں چمن
جھڑپ یہ کیسی ہوئی آج باغبانوں میں
نفاق عام ہے، نفرت ہے، قتل بھی ہے روا
سکوں کا ذکر ہے محدود اب فسانوں میں
نہ اپنے دل کو ٹٹولا، نہ اپنی شہہ رگ کو
خدا کو ڈھونڈ رہا ہوں میں آستانوں میں
نظر طیور کی تاریک ہو گئی جس سے
یہ کیسی روشنی پھیلی ہے آشیانوں میں
دروغ گوئی سے نفرت کی بھی سزا ہے یہاں
رہو تم اس لئے اے نورؔ بے زبانوں میں
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment