کلی کو گدگداتی ہے بہار آہستہ آہستہ
گلوں پر آ رہا ہے اب نکھار آہستہ آہستہ
یہ دل کا درد ہے اِس میں سکوں مشکل سے ملتا ہے
’’ذرا ٹھہرو کہ آئے گا قرار آہستہ آہستہ‘‘
لگائے ہیں یہ کس کس نے مجھے معلوم ہے سب کچھ
سرورِ شب رگ و پے سے چلا آیا ہے آنکھوں میں
سحر تک خود ہی اترے گا خمار آہستہ آہستہ
بس اک ایمان باقی ہے کہو تو یہ بھی حاضر ہے
میں دل تو کر چکا تم پر نثار آہستہ آہستہ
شعاعیں حسن کی ایسی بکھرتی ہیں پسِ پردہ
کہ بدلی سے گرے جیسے پھوہار آہستہ آہستہ
وفا پر فوقؔ میری اعتبار ان کو نہیں آیا
مگر آئے گا اک دن اعتبار آہستہ آہستہ
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment