پھول بچھوائے گئے شطِ سبو کھولی گئی
اس طرح پھر ان سے راہِ گفتگو کھولی گئی
زندگی کے بیچ جن کا کھولنا دشوار تھا
کھل گئے جب انکی زلفِ مشکبو کھولی گئی
شب گئے اس پیرہن کا بھی معمہ حل ہوا
آگہی نے توڑ ڈالے سب طلسماتِ کہن
ہر حقیقت میکشوں کے روبرو کھولی گئی
اور تو کیا گفتگو کرتے غزالوں سے ظفرؔ
جب زباں کھولی بہ شرحِ آرزو کھولی گئی
سراج الدین ظفر
No comments:
Post a Comment