Tuesday, 2 May 2017

لاکھ روکا تھا زمانے نے مگر لایا ہوں

لاکھ روکا تھا زمانے نے مگر لایا ہوں
موسمِ مرگ میں جینے کی خبر لایا ہوں
دھول چہرے پہ جمی، پاؤں میں چھالوں کی بہار
بس یہی صاحبو! سامانِ سفر لایا ہوں
گو کہ پامالِ زمانہ ہوں، مگر تیرے لیے
اس اندھیرے میں بھی امیدِ سحر لایا ہوں
تُو ضرورت ہے مِری میں ہوں ضرورت تیری
تیرے گھر زَر ہے تو میں دستِ ہنر لایا ہوں
جس کو تُو چھوڑ کے آیا تھا مِرے پہلو میں
میں وہی خواب سرِ دیدۂ تر لایا ہوں
کون کہتا ہے تہی دست زمیں پر اترا
اور کیا لاتا میں اوصافِ بشر لایا ہوں
میں نے اک شب درِ اقدس پہ گزاری ثاقبؔ
جلوۂ یار سے کشکول کو بھر لایا ہوں

سہیل ثاقب

No comments:

Post a Comment