یہ اضطراب رہے گا قرار آنے تک
نہ مسکرائیں گے غنچے بہار آنے تک
مریضِ غم میں کہاں تابِ انتظار اتنی
نہ جانے حال ہو کیا غمگسار آنے تک
جبیں جو روز جھکاتے ہیں یہ خبر ہے انہیں
جسے یہ علم تھا آئے گی ایک دن وہ ضرور
اجل کا اس نے کیا انتظار آنے تک
گراں ہے وقت یہ گلشن کے ساکنوں پہ بہت
خزاں کے دور سے لے کر بہار آنے تک
برنگِ خار کھٹکتا رہے گا آنکھوں میں
یہ موسموں کا تغیّر سدھار آنے تک
سکوں نصیب نہ ہو گا ہمیں کسی صورت
اُجاڑ باغ میں پھر سے نکھار آنے تک
کہاں ملیں گے وہ انسان اس زمانے میں
رہیں جو ساتھ دکھوں میں قرار آنے تک
خطا یہ نورؔ ہے اپنی کیا نہ بند اِنہیں
کھلے رہے یہ دریچے غبار آنے تک
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment