Wednesday, 24 May 2017

بس اک نگاہ سے مست شراب کر کے مجھے

بس اک نگاہ سے مستِ شراب کر کے مجھے
کسی نے چھوڑ دیا انتخاب کر کے مجھے
مرے سوال پر آنکھیں اٹھی تھیں لب تھے چپ
دیا جواب مگر لاجواب کر کے مجھے
وہ اس ادا سے چلے آج اجنبی بن کر
نظر بچا کے نظر سے خطاب کر کے مجھے
یہ بخت آج اندھیرے مِرے مقابل ہیں
’’زمیں پہ پھینک دیا آفتاب کر کے مجھے‘‘
حیات درد ہے اور درد ہے حیات مری
ازل سے بھیجا گیا انتخاب کر کے مجھے
شکستِ شوق سے جس نے مجھے بچایا تھا
وہ شخص پھر نہ ملا کامیاب کر کے مجھے
بڑے خلوص سے لا کر حیات چھوڑ گئی
اسیرِ زلف قتیلِ شباب کر کے مجھے
رہا نہ فوقؔ زمانے سے اب کوئی پردہ
نتیجہ دیکھ لیا بے نقاب کر کے مجھے

فوق کریمی

No comments:

Post a Comment