ہجر کو وصل میں وہ رات کی رانی بدلے
آ گیا ہوں تو محبت کی کہانی بدلے
دوسری بار بھی جنت سے نکل آیا ہوں
میں جو بدلوں تو مِری نقل مکانی بدلے
بدتمیزوں سے نہیں بنتی اسے کہہ دے کوئی
آخری سال پڑھائی کا مِرا شہروں میں
گاؤں میں اپنی حویلی نہ پرانی بدلے
پاؤں میں کیسے پہنتی ہے گلے کا زیور
اس پہ جچتی ہے وہ پازیب سے گانی بدلے
جان دینے کی عطا رسم ہوئی ہے تازہ
میں نے شہروں میں محبت کے معانی بدلے
احمد عطاءاللہ
No comments:
Post a Comment