ہوا ہے یوں محبت کا اثر آہستہ آہستہ
اِدھر آہستہ آہستہ، اُدھر آہستہ آہستہ
حریمِ حُسن کے آداب رکھ پیشِ نظر اے دل
دھڑک آہستہ آہستہ، گزر آہستہ آہستہ
مِری آنکھوں میں آ دل میں اتر پھر روح میں کھو جا
کسی کا اور بھی مجھ پر کرم پیہم ہے بے پایاں
اگر ان تک بھی پہنچی یہ خبر آہستہ آہستہ
یکایک دیکھنے پر تابِ نظارہ کہاں ہو گی
اٹھائیں روبرو ان کے نظر آہستہ آہستہ
بتاتے ہیں در و دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں
’’زباں سے نام لو میرا، مگر آہستہ آہستہ‘‘
ہو ممکن تو نشاط و کیفِ شب کو بھول ہی جاؤ
وہ دیکھو آ رہی ہے اب سحر آہستہ آہستہ
ڈھلی ہے شب ادھر بھی نیند کا غلبہ ہوا طاری
جھکی جاتی ہیں پلکیں بھی اِدھر آہستہ آہستہ
اسے تو فوقؔ جھکنا تھا یہیں پر اور بھی لیکن
کہاں مِرا جھکا جاتا ہے سر آہستہ آہستہ
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment