رواں دواں ہیں اندھیرے بھی بام و در کی طرف
میں جا رہا ہوں سرِ شام اپنے گھر کی طرف
ڈرا سکیں گے نہ آثار آندھیوں کے انہیں
پرندے لوٹنے والے ہیں اب شجر کی طرف
پلٹ کے اپنے خد و خال پر ہی آتی ہے
نہ راہزن ہے، نہ رہبر نہ پاس رختِ سفر
سفر کا حکم ملا ہے یہ کس نگر کی طرف
سبق ملا ہے مجھے کربلا کے مکتب سے
ہو بات حق کی تو دیکھا کرو نہ سر کی طرف
قبول و رد کی مجھے کچھ خبر نہیں لیکن
دعائے امن کا رخ ہو نہ ہو اثر کی طرف
سمٹ کے کس لیے اے نورؔ آنے لگتے ہیں
تمہاری بات کے پہلو اگر مگر کی طرف
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment