وِرد جاری ہے وجد طاری ہے
کیفیت یہ بھی اختیاری ہے
مجھ دِیے کو تلاش کر لو تو
میری سب روشنی تمہاری ہے
کیا ضروری کہ تم نے جیتی ہو
کاش دیوار سے صدا آئے
میری تصویر کیوں اتاری ہے
صرف اک بات ہے، مِرا ہونا
اور وہ بات بھی تمہاری ہے
جسم اک شاخ سے بندھے ہوئے ہیں
اور شجر وقت، سانس آری ہے
اب میں یہ رمز کس کو سمجھاؤں
"چاندنی دودھ کی دلاری ہے"
سوچ دریائی ہو، سمندری ہو
یہ تخیل تو آبشاری ہے
تاش کے کارڈ پر بنا جوکر
ایک ہارا ہوا جواری ہے
تم جو دیکھو تو ہے نظر تلوار
اور یہ تلوار چار دھاری ہے
تیسرا کوئی بھی نہیں عمارؔ
اک تماشا ہے، اک مداری ہے
عمار اقبال
No comments:
Post a Comment