آپ کے غم کی دسترس میں رہے
اس برس بھی اُسی برس میں رہے
جانے وہ قید یا رہائی تھی؟
اک مسیحا کے ہم قفس میں رہے
ہم کو معلوم عشق لاحاصل
ایک پاتال زندگی اپنی
ہر گھڑی خواہشِ کلس میں رہے
مختصر کر تو داستاں ابرکؔ
روح تھے وہ نہ اس نفس میں رہے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment